منگل، 30 نومبر، 2021

نماز جمعہ کے وقت اور بیانات سے متعلق سوالات

سوال :

1) کیا جمعہ کی پہلی اذان زوال کے متصلاً بعدہونی چاہئے اور اسی پرعملی توارث چلا آ رہا ہے اور تمام فقہاء اس پر متفق ہیں؟
2) کیا پہلی اذان اگر تاخیر سے بھی ہوئی ہو تو بھی زوال کے بعد بیع و شراء سب حرام ہو جاتے ہیں کیونکہ زوال کے بعد جمعہ کا وقت شروع ہو جاتا ہے؟
3) کیا زوال اور پہلی اذان کے بعد صرف نماز کی تیاری کا اور جلد از جلد مسجد پہنچنے کاحکم ہے جو واجب ہے اور اس کا ترک گناہ ہے؟ کوئی دوسرا کام یعنی خریدو فروخت، سونا، حتی کہ کوئی دینی کام، مثلاً ظہر کی سنتیں، صلاۃ التسبیح، قرآن کی تلاوت یا کسی دینی کتاب کا مطالعہ وغیرہ سب  مکروہ تحریمی اور ناجائز  ہیں کیونکہ زوال کے بعد یہ سب  بھی بیع میں شامل ہیں؟
4) کیا پہلی اور دوسری اذان کے درمیان صرف اتنا وقفہ ہونا چاہئے کہ لوگ نماز کی تیاری کرکے مسجد میں پہنچ جائیں اورسنتوں سے فارغ ہو سکیں کیونکہ جمعہ کی نماز میں تعجیل مستحب ہے؟
5) دونوں اذانوں کے درمیان وقفہ طویل ہونے کی وجہ سے لوگ اول وقت مسجد میں آنے سے تساہلی برتتے ہیں  اور نماز کیلئے تیار ہونے کے باوجود دوسرے کاموں میں مشغول ہوتے ہیں کہ ابھی تو بیان ہو رہا ہے مسجد پہنچ کر کیا کریں گے۔ کیا اس تاخیر کی ذمے داری تاخیر سے آنے والوں کے ساتھ ساتھ مسجد کی منتظمہ، امام اور مقرر سب پر عائد ہوتی ہے کہ ترک واجب کے گناہ میں معاون ہوتے ہیں؟
6) ہمارے شہر میں جمعہ کی اذان اول زوال کے کافی دیر کے بعد ہوتی ہے۔ اس کے بھی تقریباً پچاس منٹ کے بعد دوسری اذان ہوتی ہے۔ بعض مساجد میں مزید تاخیر حتیٰ کہ دو بجے پہلی اذان اور پونے تین بجے دوسری اذان ہوتی ہے۔ نماز جمعہ میں اتنی تاخیر کی کیا تاویل کی جا سکتی ہے؟ اب تو شہر میں بے شمار مفتیان کرام اور جید علماء کرام موجود ہیں اس کے باوجود ہم ترک واجب کے اس اجتماعی گناہ میں کیوں مبتلا ہیں؟
7) کیا نماز جمعہ میں تعجیل کی سنت کو زندہ کرنا ہماری ذمے داری نہیں ہے؟
8) نماز جمعہ مستحب وقت پر ادا کرکے نماز کے بعد تقریر کرنے میں کیا قباحت ہے؟بینوا و تؤجروا
(المستفتی : ڈاکٹر سعید، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم :
الجواب وباللہ التوفيق : نمازِ جمعہ کا وقت زوال کے بعد سے سایۂ اصلی دو مثل ہونے تک  باقی رہتا ہے۔ البتہ ہر موسم میں نمازِ  جمعہ اوّل  وقت میں پڑھنا  مستحب  ہے، حنفی فقہاء اس کے استحباب پر متفق ہیں۔ لہٰذا بہتر تو یہی ہے کہ زوال کے بعد جلد از نمازِ جمعہ ادا کرلی جائے۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ فقہاء نے کسی بھی امر مستحب پر اصرار اور اس کے ترک پر نکیر کو مکروہ لکھا ہے۔ لہٰذا بوقت ضرورت اس میں تاخیر کو ناجائز سمجھنا بذاتِ خود اصلاح کا متقاضی ہے۔ شریعت نے جن معاملات میں سختی نہیں برتی ہے اس میں ہمارے اور آپ کے لیے سختی کا مظاہرہ کرنا قطعاً درست نہیں ہے۔ اگر شہر میں زوال کے فوراً بعد اذان دینے کا معمول بنایا جائے تو ہر موسم میں جمعہ کی نماز کے وقت میں کمی بیشی کرنا پڑے گی جو بلاشبہ شہر کے ایک بڑے طبقہ کے لیے تنگی کا باعث ہوگی۔ اس لئے گرمی کے زوال کا اعتبار کرتے ہوئے شہر کی اکثر مساجد میں پون بجے اذان دینے کا معمول ہے جس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اور صرف شہرِ عزیز ہی نہیں بلکہ برصغیر کے اکثر علاقوں میں یہی معمول ہے۔ (1)

2) مصلی جس مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرے گا اسی مسجد کی پہلی اذان کے بعد سے اس پر بیع و شراء کی ممانعت کا حکم لگے گا۔ زوال کے بعد اذانِ اوّل سے پہلے تک بیع و شراء ممنوع نہیں ہے۔ (2) اس لئے کہ قرآن کریم میں بالکل واضح آیت موجود ہے جس کی تفسیر میں مفسر قرآن مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
نُوْدِيَ للصَّلٰوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ ، نداء صلوٰة سے مراد اذان ہے اور من  یوم الجمعہ بمعنی فی  یوم الجمعہ  ہے، فَاسْعَوْا اِلٰى ذِكْرِ اللہ، سعی کے معنی دوڑنے کے بھی آتے ہیں اور کسی کام کو اہتمام کے ساتھ کرنے کے بھی، اس جگہ یہی دوسرے معنی مراد ہیں کیونکہ نماز کے لئے دوڑتے ہوئے آنے کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا ہے کہ جب نماز کے لئے آؤ تو سکینت اور وقار کے ساتھ آؤ، آیت کے معنی یہ ہیں کہ جب جمعہ کے دن جمعہ کی اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو، یعنی نماز و خطبہ کے لئے مسجد کی طرف چلنے کا اہتمام کرو، جیسا دوڑنے والا کسی دوسرے کام کی طرف توجہ نہیں دیتا، اذان کے بعد تم بھی کسی اور کام کی طرف بجز نماز و خطبہ کے توجہ نہ دو۔ (ابن کثیر) ذکر اللہ سے مراد نماز جمعہ بھی ہو سکتی ہے اور خطبہ جمعہ جو نماز جمعہ کے شرائط و فراض میں داخل ہے وہ بھی، اس لئے مجموعہ دونوں کا مراد لیا جائے یہ بہتر ہے۔ (مظہری/بحوالہ معارف القرآن)

3) ایک بار پھر اس کا اعادہ کیا جارہا ہے کہ جن لوگوں پر جمعہ کی نماز فرض ہے ان کے لئے جمعہ کے دن جمعہ کی پہلی اذان (نہ کہ زوال) سے لے کر نماز جمعہ سے فارغ ہونے تک مفتیٰ بہ قول کے مطابق خرید و فروخت کرنا، سونا، کسی دینی کام میں مشغول ہونا، حتی کہ قرآن مجید کی تلاوت کرنا، صلوۃ التسبیح پڑھنا، (جمعہ کے دن ظہر کی سنتیں کہاں سے آگئیں؟) غرض وہ سارے کام اور مشاغل جو جمعہ کی طرف جانے کے اہتمام میں مخل ہوں سب کے سب مکروہ تحریمی اور ناجائز ہیں، حرام نہیں۔ سوال نامہ میں ایک جگہ آپ نے حرام لکھا ہے، لہٰذا اس کی اصلاح کرلی جائے۔ اس وقت کھانے کے مسئلہ میں تفصیل یہ ہے کہ اگر کھانے کی طرف رغبت اور بھوک اتنی غالب ہو کہ نماز کے دوران دل اس میں لگا رہنے کا اندیشہ ہو اور نماز سے فراغت تک کھانا بے لذت ہوجانے کا خطرہ ہو تو کھانا کھایا جاسکتا ہے، بشرطیکہ خطبہ جمعہ کے فوت ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔ اس کے علاوہ جمعہ کی تیاری کے متعلق جو کام ہیں وہ کئے جاسکتے ہیں جیسے غسل کرنا، وضو کرنا، لباس پہننا وغیرہ لیکن قصداً اذان تک دیگر کاموں میں مشغول رہنا اور اذان کے بعد غسل وغیرہ میں لگنا درست نہیں ہے۔ نیز مسجد پہنچ کر خطبہ سے پہلے قرآن کی تلاوت اور نوافل پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطیکہ اس کی وجہ سے دوسروں کو تکلیف نہ ہو۔

4) بہتر تو یہی ہے کہ پہلی اذان اور خطبہ کے درمیان صرف اتنا ہی وقفہ ہو کہ اطمینان و سکون سے سنتیں ادا ہوجائیں۔ وعظ ونصیحت اذانِ اول سے پہلے ہوجائے۔ تاہم پہلی اذان کے بعد مختصر تقریر کا معمول بھی درست اور نفع بخش ہے جس کی وجہ سے ایک بڑے طبقے کے عقائد و اعمال کی اصلاح ہوتی ہے۔ نیز اس وقت وعظ ونصیحت کا ثبوت خود آثارِ صحابہ سے ملتا ہے جیسا کہ مستدرک حاکم میں ہے کہ حضرت ابو ہریرہؓ جمعہ کے دن خطبہ سے پہلے تقریر میں آنحضرت ﷺ کی احادیث بیان کیا کرتے تھے جب امام خطبہ کیلئے آتے تو وہ اپنی تقریر موقوف کر دیا کرتے تھے۔ (مستدرک، ۱/۱۰۸، ۳/۵۱۲)
قال الحاکم و الذھبیؒ صحیح۔ (ازراہ سنت مولانا محمد سرفراز خان صاحب)
اسی طرح مستدرک میں حضرت عبداللہ بن بسرؓ کا جمعہ کے دن خطبہ سے قبل وعظ کہنا منقول ہے۔ اور اصابہ فی تذکرۃ الصحابہ(۱۸۴/۱) میں ہے کہ حضرت تمیم داریؓ کے اصرار پر حضرت عمرؓ نے ان کو اجازت دیدی تھی کہ جمعہ کے دن اس سے قبل کہ میں خطبہ کیلئے آؤں، تقریر کر سکتے ہو۔ (ماہنامہ البلاغ، شوال ۱۴۱۵)

نیز شیخ الاسلام مفتی تقی صاحب عثمانی نے اپنے جواب میں پہلی اذان کے بعد پندرہ بیس منٹ تقریر کی گنجائش لکھی ہے اور آپ کے جواب کی تصویب کرتے ہوئے آپ کے برادر کبیر مفتی رفیع صاحب عثمانی نے بیس پچیس منٹ تک کی اجازت دی ہے۔ (فتاوی عثمانی، ۱/۵٤٦)

لہٰذا جمعہ کی پہلی اذان کے بعد مطلقاً تقریر کو تاخیر کا سبب سمجھنا صحیح نہیں ہے۔ البتہ بہت سی مساجد میں اس وقت لمبی چوڑی تقریروں اور بے ضرورت مضامین اور غیرعالموں کےمخصوص قسم کے غیرمعیاری بیانات کا جو سلسلہ چل پڑا ہے اس کی بھی اصلاح ضروری ہے۔ یہ قطعاً نہ ہو کہ وعظ و تقریر کا مبارک سلسلہ ہی بند کر دیا جائے، کیونکہ مغربی تہذیب کا دلدادہ آزاد خیال طبقہ یہی چاہتا ہے کہ ہر ہفتہ جو دین و شریعت کی کچھ باتیں مسلمانوں کے کانوں میں خطبہ جمعہ سے پہلے پڑ جاتی ہیں انہیں اس کا موقع بھی نہ ملے۔

درج بالا تمام باتوں کا خلاصہ یہ کہ ہر چیز میں حدود شریعت کی پابندی اور اعتدال کا لحاظ رکھنا ضروری ہے، معترضین تمام دلائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اعتراض کریں اور واعظین بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے خطبات کی جامعیت کا احساس رکھتے ہوئے خطاب کریں۔

5) دونوں اذان کے درمیان وقفہ ہونے کی صورت میں جو لوگ بلاعذر تاخیر سے مسجد آئیں گے وہی اس کے گناہ گار ہوں گے، مسجد کے ذمہ داران، امام اور مقرر پر اس کا کوئی وبال نہ ہوگا۔ کیونکہ وقفہ کم رکھنے کی صورت میں بھی جنہیں تاخیر سے آنا ہے وہ تاخیر سے ہی آتے ہیں جس کا ذاتی مشاہدہ ہے، ہماری کوہ نور مسجد میں اذان اوّل سے پہلے ہی تقریر ہوجاتی ہے جس میں ایک بڑا طبقہ شامل ہوجاتا ہے۔ دونوں اذان کے درمیان صرف پندرہ منٹ کا وقفہ ہے اس کے باوجود مصلیان کی ایک تعداد اخیر کے پانچ منٹ میں آتی ہے۔ اور  چند افراد تو دورانِ خطبہ وضو میں مشغول رہتے ہیں، یہی حال شہر کی تقریباً تمام مساجد کا ہے۔ تاہم انتظامیہ اور امام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ وقفہ کم سے کم رکھیں اور تقریر کا وقت تیس پینتیس منٹ سے زیادہ نہ رکھیں۔ بعض مساجد میں پون گھنٹے سے زائد تقریر کا معمول ہے جو اکثر غیرمعیاری ہونے کی وجہ سے مصلیان کے لیے بے زاری کا سبب بھی بنتی ہے۔

6) جمعہ کی نماز کا وقت تاخیر سے مصلیان کی رعایت میں رکھا جاتا ہے جس کی گنجائش موجود ہے، اوپر دلائل بھی ذکر کیے گئے ہیں۔ البتہ اتنی تاخیر سے نماز  جمعہ  کا  وقت  مقرر کرنا کہ اگلی  نماز  کا  وقت قریب ہونے لگے یا امام  کا  مقررہ  وقت  سے بلاوجہ اتنی زیادہ تاخیر کرنا کہ جس سے مقتدیوں کو پریشانی ہو، یہ طریقہ خلافِ سنت ہے۔ تاخیر سے جمعہ کی نماز قائم کرنا صرف غیرافضل ہے، مکروہ اور خلافِ سنت نہیں۔ جیسا کہ اولین مفتی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمان صاحب رحمہ اللہ اپنے فتاوی میں اس سوال کے جواب میں کہ جمعہ کو سوا بجے پڑھنے والے افضلیت پر ہیں یا ڈھائی بجے پڑھنے والے افضلیت پر ہیں، لکھتے ہیں :
جمعہ میں تعجیل افضل ہے ایک بجے، سوا بجے پڑھنے والے افضلیت پر ہیں۔ (عزیز الفتاوی، ص۲۷۴)

7) تعجیل مستحب ہے، تاکیدی سنت نہیں کہ جس پر عمل نہ ہونے کی صورت میں نکیر کی جائے اور پورے شہر کے علماء، ائمہ اور مساجد کے ذمہ داران کو مجرم ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔ ویسے بھی اب شہر کی متعدد مساجد میں اوّل وقت میں نماز جمعہ ادا کی جارہی ہے، لہٰذا سنت کو زندہ کرنے والا جملہ یہاں بے محل استعمال ہوا ہے۔

8) مصلیان کی ایک بڑی تعداد جو جمعہ کی فرض نماز کے بعد چار رکعت سنت مؤکدہ ہی اطمینان وسکون سے پڑھ لے تو غنیمت ہے۔ ایسے حالات میں کیا ان سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ نماز کے بعد وعظ ونصیحت سننے کے لیے ٹھہریں گے؟ بلاشبہ نماز کے بعد تقریر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اعتدال میں رہتے ہوئے نماز سے پہلے بھی تو کوئی قباحت نہیں ہے۔ لہٰذا آپ کا اصرار بھی صحیح نہیں ہے۔

1) عن أنس بن مالک رضی اﷲ عنہ أن رسول اﷲ ﷺ  کان یصلی الجمعۃ حین تمیل الشمس۔ (صحیح البخاری،۱۲۳/۱)

وأول  وقت الظہر إذا زالت الشمس وآخر وقتہا عند أبی حنیفۃؒ إذا صار ظل کل شئ مثلیہ سوی فئ الزوال۔ (درمختار : ۲؍۱۴)

وجمعۃ کظہر الخ۔ (درمختار : ۲؍۲۵)

وقال الجمہورلیس بمشروع (أی الإبراد) لأنہا تقام بجمع عظیم فتأخیرہا مفض إلی الحرج ولا کذلک الظہر۔ (شامی : ۲؍۲۵)

قال الطیبي : وفیہ من أصر علی أمر مندوب وجعلہ عزما، ولم یعمل بالرخصۃ فقد أصاب منہ الشیطان من الإضلال۔ (مرقاۃ، کتاب الصلاۃ، باب الدعاء في التشہد، ۲/ ۳۵۳)

الإصرار علی أمر مندوب یبلغہ حد الکراہۃ۔ (سعایہ ۲/ ۲۶۵)

2) یا أیھا الذین اٰمنوا إذا نودي للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا إلی ذکر اللہ وذروا البیعَ ، ذلکم خیرٌ لکم إن کنتم تعلمون o فإذا قُضیت الصلوۃ فانتشروا في الأرض وابتغوا من فضل اللہ ، واذکروا اللہ کثیرًا لعلکم تفلحون ۔ (سورۃ الجمعۃ، آیت : ۹، ۱۰)

وإذا أذن المؤذنون الأذان الأول ترک الناس البیع والشراء وتوجہوا إلی الجمعۃ ۔ (ہدایہ، ۱/۱۷۱، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ الجمعۃ)

ويجب السعي وترك البيع بالأذان الأول، … وقال الحسن بن زياد: المعتبر هو الأذان على المنارة، والأصح أن كل أذان يكون قبل الزوال فهو غير معتبر والمعتبر أول الأذان بعد الزوال سواء كان على المنبر أو على الزوراء، كذا في الكافي.(الفتاوى الهندية :۱؍۱۴۹، صلاۃ الجمعۃ)

والبیع عنداذان  الجمعۃ قال اللّٰہ تعالٰی وذرواالبیع ثمّ فیہ اخلال بواجب السعی علٰی بعض ابوجوہ وقد ذکرنا الاذان  المعتبر فیہ فی کتاب الصلوٰۃ کل ذٰلک یکرہ لماذکرناولایفسد بہ البیع۔ (ہدایہ : ۳؍۶۹،فصل فیما یکرہ، کتاب البیوع)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
19 ربیع الاول 1441

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں