جمعرات، 17 جون، 2021

موبائل چوری کرنے والے کو نماز توڑ کر پکڑنا

سوال :

مفتی صاحب! بہت سی مسجدوں کی سی سی ٹی وی ویڈیو میں دیکھنے میں آرہا ہے کہ چور نماز کی صف میں شامل ہوتے ہیں اور نماز کے دوران سجدہ یا رکوع کی حالت میں بازو والے یا آگے والے کا موبائل لیکر بھاگ جاتے ہیں، یہاں تک پیچھے کی صف پھلانگ جاتے ہیں، تو کیا ایسی صورت میں نماز توڑ کر ہم چور کو پکڑ سکتے ہیں؟ شریعت کا کیا حکم ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : مسعود ساحل، مالیگاؤں)
------------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : بغیر کسی شرعی عذر کے نماز توڑنا جائز نہیں ہے۔ شرعی اعذار میں سے ایک عذر یہ ہے کہ نماز میں مشغول رہنے کی وجہ سے مصلی کا مالی نقصان ہورہا ہو، مثلاً اگر نماز کے دوران جیب سے کچھ پیسے گرجائیں اور کوئی دُوسرا شخص ان روپیوں کو اُٹھاکر لے جارہا ہو تو اس صورت میں نماز توڑ کر اپنا پیسہ حاصل کرنے کی گنجائش ہے۔

مالی نقصان جس کی بنا پر نماز توڑنے کی گنجائش ہے اس کی مقدار فقہاء نے ایک درہم بیان کی ہے۔ یعنی ایک درہم کے بقدر نقصان ہو رہا ہو تو نماز توڑ دینا جائز ہے۔ خواہ نماز نفل ہو یا فرض۔ ایک درہم تقریباً ساڑھے تین گرام چاندی کا ہوتا ہے، جس کی قیمت آج کی تاریخ میں دو سو روپے بنتی ہے۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں نماز توڑ کر چور کو پکڑنا جائز ہے، اس لئے کہ بلاشبہ موبائیل دو سو سے زائد قیمت کا ہی ہوتا ہے، البتہ موبائل مالک کے علاوہ دوسروں کو نماز نہیں توڑنا چاہیے، لیکن اگر موبائل مالک نے بھی نماز نہیں توڑی اور چور کے بھاگ جانے کا اندیشہ ہوتو کسی اور کا نماز توڑ کر اسے پکڑنا جائز ہوگا۔ ایک سے زائد لوگ نماز نہ توڑیں۔

قال اللہ تعالیٰ : لَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ الایۃ۔ (سورۃ محمد، آیت : ۳۳)

(قَوْلُهُ وَيُبَاحُ قَطْعُهَا) أَيْ وَلَوْ كَانَتْ فَرْضًا كَمَا فِي الْإِمْدَادِ (قَوْلُهُ لِنَحْوِ قَتْلِ حَيَّةٍ) أَيْ بِأَنْ يَقْتُلَهَا بِعَمَلٍ كَثِيرٍ، بِنَاءً عَلَى مَا مَرَّ مِنْ تَصْحِيحِ الْفَسَادِ بِهِ (قَوْلُهُ وَنَدِّ دَابَّةٍ) أَيْ هَرَبِهَا، وَكَذَا لِخَوْفِ ذِئْبٍ عَلَى غَنْمٍ نُورُ الْإِيضَاحِ (قَوْلُهُ وَفَوْرِ قِدْرٍ) الظَّاهِرُ أَنَّهُ مُقَيَّدٌ بِمَا بَعْدَهُ مِنْ فَوَاتِ مَا قِيمَتُهُ دِرْهَمٌ؛ سَوَاءٌ كَانَ مَا فِي الْقِدْرِ لَهُ أَوْ لِغَيْرِهِ رَحْمَتِيٌّ (قَوْلُهُ وَضَيَاعِ مَا قِيمَتُهُ دِرْهَمٌ) قَالَ فِي مَجْمَعِ الرِّوَايَاتِ: لِأَنَّ مَا دُونَهُ حَقِيرٌ فَلَا يَقْطَعُ الصَّلَاةَ لِأَجْلِهِ؛ لَكِنْ ذَكَرَ فِي الْمُحِيطِ فِي الْكَفَالَةِ أَنَّ الْحَبْسَ بِالدَّانَقِ يَجُوزُ، فَقَطْعُ الصَّلَاةِ أَوْلَى، وَهَذَا فِي مَالِ الْغَيْرِ، أَمَّا فِي مَالِهِ لَا يَقْطَعُ. وَالْأَصَحُّ جَوَازُهُ فِيهِمَا اهـ وَتَمَامُهُ فِي الْإِمْدَادِ وَاَلَّذِي مَشَى عَلَيْهِ فِي الْفَتْحِ التَّقْيِيدُ بِالدِّرْهَمِ۔ (شامی : ١/٦٥٤)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
05 ذی القعدہ 1442

8 تبصرے:

  1. جزاكم اللّٰہ خيراً و احسن الجزاء

    جواب دیںحذف کریں
  2. جزاک اللہ خیرا.... بہت دنوں تک میرے ذہن میں بھی یہ سوال تھا... الحمد للہ آج تشفی بخش جواب مل گیا.... بہت شکریہ.... نوشاد علی ریاض احمد

    جواب دیںحذف کریں
  3. یہ سوال کافی دنوں سے میرے بھی دماغ میں تھا کہ مسجدوں میں ہونے والی چوری کا آخر حل کیا ہے۔۔۔ آپ کہ جواب سے دین کی کچھ اور معلومات میں اضافے ہوا اور کچھ باریکی بھی سمجھ میں آئی۔ اللّٰہ پاک آپ کو بہترین جزائے خیر عطا فرمائے آمین۔۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. جزاک اللہ خیرا فی الدارین

    جواب دیںحذف کریں