جمعرات، 9 مئی، 2024

ایک سحری سے متعدد روزے اور چپ کا روزہ رکھنے کا حکم


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے اگر کوئی شخص ایک سحری سے کئی روزہ رکھے اور اس میں کسی سے بھی چیت نہ کرے تو کیا ایسا کرنا درست ہے؟ رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : محمد حسان، مالیگاؤں)
------------------------------------ 
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
الجواب وباللہ التوفيق : متعدد احادیث میں یہ مضمون وارد ہوا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے روزہ پر روزہ پر رکھنے سے منع فرمایا تو ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ و سلم تو روزہ پر روزہ رکھتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : تم میں سے کون شخص میری طرح ہے؟ میں تو اس طرح رات گزارتا ہوں میرا پروردگار کھلاتا ہے اور میری پیاس بجھاتا ہے۔ (بخاری ومسلم)

حدیث شریف میں مذکور روزہ پر روزہ رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دو یا دو سے زائد روزے اس طرح مسلسل رکھے جائیں کہ درمیان میں افطار نہ ہو، روزہ پر روزہ رکھنے سے اس لئے منع فرمایا گیا ہے کہ ضعف اور کمزوری کا سبب ہوتا ہے جس کی وجہ سے دوسری عبادات اور طاعات میں نقصان و حرج واقع ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ، حضرت امام مالک اور امام شافعی رحمھم اللہ نے اسے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے۔

جمہور علماء امت کا کہنا ہے کہ روزہ پر روزہ رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے خصائص میں سے ہے اور حدیث کے ظاہر مفہوم سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔

چپ کا روزہ رکھنا یعنی روزہ کی حالت میں بتکلف خاموش رہنا، کوئی بات چیت نہ کرنا اور اس کو عبادت سمجھنا مجوسیوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے مکروہ تحریمی ہے۔ 

معلوم ہوا کہ سوال نامہ میں مذکور دونوں عمل کوئی ثواب کا کام نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تعلیمات کے خلاف مکروہ تحریمی یعنی ناجائز اور گناہ کے ہیں، لہٰذا ان سے بچنا ضروری ہے۔


عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ : " لَا تُوَاصِلُوا ، فَأَيُّكُمْ إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَاصِلَ فَلْيُوَاصِلْ حَتَّى السَّحَرِ ". قَالُوا : فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ : " إِنِّي لَسْتُ كَهَيْئَتِكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ لِي مُطْعِمٌ يُطْعِمُنِي، وَسَاقٍ يَسْقِينِ۔ (صحیح البخاری، رقم : ١٩٦٣)

وَكَذَا صَوْمُ الصَّمْتِ وَهُوَ أَنْ يُمْسِكَ عَنْ الطَّعَامِ، وَالْكَلَامِ جَمِيعًا، لِأَنَّ «النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - نَهَى عَنْ ذَلِكَ» وَلِأَنَّهُ تَشَبُّهٌ بِالْمَجُوسِ۔ (بدائع الصنائع : ٢/٧٩)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
29 شوال المکرم 1445

عدت کے ایام میں ووٹ دینے جانا


سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیان عظام مسئلہ ھذا کے متعلق کہ ایک عورت عدت کی حالت میں موجودہ الیکشن 2024 میں اپنی ووٹنگ کرنے کے لئے گھر سے نکل سکتی ہے کیا؟ شریعت کی نظر میں اس کا ووٹنگ کے لئے نکلنا کیسا ہے؟ ہم نے سنا ہے کہ عورت کا حالت عدت میں صرف ضروریات اصلیہ کے لئے نکلنا مباح ہے، موجودہ الیکشن 2024 کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے از راہ کرم مکمل رہبری فرمائے، عین نوازش ہوگی۔
(المستفتی : عبداللہ، پونہ)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : عدت خواہ وفات کی ہو یا طلاق کی۔ اس میں معتدہ کے لیے بغیر کسی شرعی عذر کے گھر سے نکلنا جائز نہیں ہے۔ اور ووٹ دینے کو بعض مفتیان نے شرعی ضرورت میں شمار نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے دئیے گئے فتاوی میں اس کی اجازت نہیں دی گئی ہے کہ متعدہ ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلے۔ البتہ بہت سے مفتیان نے موجودہ حالات میں عدت کے ایام میں ووٹ دینے کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے۔

مفتی شکیل منصور قاسمی لکھتے ہیں :
معتدہ کو صرف ضرورت شرعی وطبعی کے لئے باہر نکلنے کی اجازت ہے :
لا تخرج المعتدۃ عن طلاق أو موت إلا لضرورۃ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳۶، البحر الرائق زکریا ۴/۲۵۹، کراچی ۴/۱۵۴)

ووٹ دینا ادائے شہادت ہے جو شرعی ضرورت اور بمنزلہ وجوب ہے۔ اس لئے میرے خیال سے شرعی حدود میں رہتے ہوئے معتدہ ووٹ دینے کے لئے دن ہی دن باہر نکل سکتی ہے۔ دیگر ارباب افتاء سے بھی استفسار کرلیا جائے، جو حضرات ووٹ دینے کو شرعی ضرورت نہ گردانتے ہوں ان کے یہاں حکم مختلف ہوسکتا ہے۔

معین مفتی دارالافتاء دارالعلوم دیوبند، مفتی نعمان سیتاپوری تحریر فرماتے ہیں :
دور حاضر میں ملکی حالات کے تناظر میں ووٹ ایک شخصی، ملی اور ملکی ضرورت ہے، اس کے لئے معتدہ کا نکلنا بلاشبہ جائز ہے۔ ووٹ کا مسئلہ نیا ہے؛ اس لئے شامی وغیرہ میں اس کا کوئی حوالہ نہیں ملے گا۔ اور اکابر کے فتاوی میں جو کچھ ہے، وہ ان حضرات کے حالات زمانہ کے تناظر میں ہے، اور اب حالات بہت کچھ بدل چکے ہیں اور ووٹ کی حیثیت واہمیت بھی پہلے سے بہت زیادہ ہوچکی ہے ، جس کی تفصیل کا فی الحال موقع نہیں ؛ البتہ اتنا عرض ہے کہ احقر کا فتوی سمجھنے کے لیے ۲؍ چیزیں ضروری ہیں: ایک ان فقہی جزئیات کا مطالعہ، جن میں ضرورت اور رفع حرج کے لیے معتدہ کو خروج کی اجازت دی گئی ہے۔ اور دوسری چیز یہ کہ ووٹ کی حیثیت، اس کے مثبت ومنفی اثرات ونتائج کیا ہیں بالخصوص دور حاضر کے ملکی حالات کے تناظر میں؟ جو مفتی درج بالا دونوں باتیں مد نظر رکھے گا، اسے احقر کے فتوے پر کوئی اشکال نہیں ہوگا، احقر نے جو کچھ لکھا ہے، وہ بہت غور وفکر پر مبنی ہے؛ بلکہ احقر کئی مہینوں سے اس مسئلہ پر غور کررہا ہے، باقی احقر کا مقصد کسی کو منوانا نہیں ہے، اگر کوئی نہیں مانتا تو اس کی مرضی۔ اور اگر کسی کوئی علمی اشکال ہو تو احقر اسے سننے، سمجھنے اور اس کا معقول جواب دینے کے لیے تیار ہے۔ (۲۵؍ رجب، ۱۴۴۰ھ، سہ شنبہ)

ان کے علاوہ بھی بیسیوں مفتیان نے ان فتاوی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور تصدیق کی ہے۔ بندہ کا رجحان بھی یہی ہے کہ موجودہ حالات میں جبکہ ووٹ کی اہمیت کافی بڑھ چکی ہے، پھر NRC (شہریت ترمیمی قانون) میں ووٹ دینا ثبوت کے طور پر بھی کام آنے والا ہے۔ لہٰذا اس کی اجازت ہونی چاہیے۔

فقیہ الامت مفتی محمود حسن گنگوہی نے لکھا ہے کہ 
قاتل کی شناخت کرنے کے لئے عدت والے مکان سے عدالت میں جانا درست ہے، مگررات کو اپنے مکان میں پہنچ جائے۔ (فتاوی محمودیہ : ٢٠/٣١)

چنانچہ جب ایک قاتل کی شناخت کے لیے عدت کے ایام میں عدالت جانے کی گنجائش ہے تو پھر سینکڑوں معصوموں اور بے گناہوں کے قاتلوں کو سبق سکھانے کے لیے عدت کے ایام میں ووٹ دینے کے لیے جانے کی بدرجہ اولیٰ گنجائش ہوگی۔

البتہ اس میں خیال رکھا جائے کہ جتنی جلدی ہوسکے معتدہ ووٹ دے کر اپنے گھر پہنچ جائے، نیز کسی محرم مرد یا کسی عورت کے ساتھ جائے اور پردہ کا اہتمام تو ہر وقت ضروری ہے۔


لا تخرج المعتدۃ عن طلاق أو موت إلا لضرورۃ۔ (شامی، کتاب الطلاق، باب العدۃ، زکریا دیوبند ۵/۲۲۵، کراچی ۳/۵۳۶، البحر الرائق زکریا ۴/۲۵۹، کراچی ۴/۱۵۴)

الضرورات تبیح المحظورات۔ (الاشباہ والنظائر :۱۴۰)

اَلضَّرُوْرَاتُ تَتَقَدَّرُ بِقَدْرِہَا۔ (قواعد الفقہ:ص۸۹، القاعدۃ:۱۷۱)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
29 شوال المکرم 1445

منگل، 7 مئی، 2024

حج کی قربانی میں تاخیر ہوجائے تو؟


سوال :

مفتی صاحب ! تمتع کرنے والے نے حج کی قربانی ۱۲ کی غروب سے پہلے نہیں کی تو کیا حکم ہے؟ کیا صرف ایک دم دینا ہوگا یا ساتھ میں تمتع کی قربانی بھی کرنی ہوگی یعنی دو قربانی کرنی ہوگی؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : نصاب والی قربانی کی طرح دمِ قران اور دم تمتع کے بھی تین دن ہیں، عید کا دن (دس ذی الحجہ)، اور عید کے بعد دو دن (گیارہ اور بارہ ذی الحجہ)۔ یعنی ان تین دنوں میں حج کی قربانی کرلینا واجب ہے۔ اگر اس میں تاخیر ہوگئی یعنی بارہ ذی الحجہ کو غروب کے بعد اگر کسی نے حج کی قربانی کی تو اس کی قربانی تو ادا ہوجائے گی، لیکن وقتِ مقررہ، یعنی ایام نحر میں قربانی نہ ہونے کی وجہ سے اس پر ایک دم بھی لازم ہوگا۔ 

صورتِ مسئولہ میں دمِ تمتع کے ساتھ دمِ جنایت بھی دینا ضروری ہے۔


ویختص ذبحہ بالمکان وہو الحرم، وبالزمان وہو أیام النحر حتی لو ذبح قبلہا لم یجز بالإجماع ولو ذبح بعدہا أجزأہ بالإجماع، ولکن کان تارکا للواجب عند الإمام یجب بین الرمي والحلق ولا آخر لہ في حق السقوط۔ (غنیۃ : ۱۲۸)

ولو أخر القارن والمتمتع الذبح عن أیام النحر فعلیہ دم۔ (غنیۃ : ۱۴۹)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
27 شوال المکرم 1445

اتوار، 5 مئی، 2024

کیا اللہ کے ذکر سے غافل مچھلی جال میں پھنستی ہے؟


سوال :

مفتی صاحب ! جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو، کیا یہ حدیث ہے یا کسی بزرگ کا مقولہ؟ برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
(المستفتی : ڈاکٹر اسامہ، بھیونڈی)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : واقعات اور پند ونصائح پر مشتمل علامہ ابن جوزی رحمہ اللہ کی کتاب "صفۃ الصفوۃ" میں ایک واقعہ مذکور ہے جو درج ذیل ہے۔

ابو العباس بن مسروق بیان فرماتے ہیں کہ میں جب یمن میں تھا، تو  ایک ساحل پر کسی شکاری کو مچھلی  شکار کرتے دیکھا، اس کے پہلو میں اس کی بیٹی بھی موجود تھی، وہ جب بھی مچھلی شکار کرکے اسے ٹوکرے میں ڈالتا، اس کی بیٹی اسے واپس پانی میں ڈال دیتی، آخر میں شکاری نے ٹوکرے کو دیکھا تو اس میں کچھ نہیں تھا، اپنی بیٹی سے کہا : تونے مچھلیوں کے ساتھ کیا کیا؟ اس نے کہا: اے ابا جان ! کیا میں نے آپ سے نہیں سنا  کہ آپ  حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو، مجھے اچھا نہیں لگا کہ ہم ایسی چیز کھائیں جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو، تو آدمی رونے لگا، اور جال پھینک دیا۔ 

لیکن اس واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف منسوب کرکے جو بات کہی گئی ہے کہ "جال میں وہی مچھلی پھنستی ہے جو اللہ تعالی کے ذکر سے غافل ہو" اس کی کوئی سند نہیں ہے اور نہ ہی کسی حدیث کی کتاب میں یہ روایت مذکور ہے۔ لہٰذا اسے حدیث کہہ کر تو بالکل بیان نہیں کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی کسی کا قول کہہ کر بیان کرسکتے ہیں، اس لیے کہ یہ ایک غیبی اور چھپی ہوئی بات ہے جس کا علم ہمیں قرآن وحدیث کے بغیر نہیں ہوسکتا۔


أبو العباس بن مسروق قال : كنت باليمن فرأيت صياداً يصطاد السمك على بعض السواحل، وإلى جنبه ابنة له. فكلما اصطاد سمكة فتركها في دوخلة معه ردت الصبية السمكة إلى الماء، فالتفت الرجل فلم ير شيئاً، فقال لابنته: أي شيء عملت بالسمك؟ فقالت: يا أبي أليس سمعتك تروي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "لا تقع سمكة في شبكة إلا إذا غفلت عن ذكر الله عز وجل" فلم أحب أن نأكل شيئاً غفل عن ذكر الله تعالى. فبكى الرجل ورمى الصنارة۔ (صفة الصفوة لابن الجوزي : ٢/٥٣٥)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی
25 شوال المکرم 1445

ہفتہ، 4 مئی، 2024

حضرت ادریس علیہ السلام کا آسمان پر اٹھا لیا جانا


سوال :

مفتی صاحب ! آج ایک صاحب جو کہ عالم ہیں، انہوں نے مجھے ایک واقعہ بیان کیا کہ 
ادریس علیہ السلام کی ملک الموت سے دوستی تھی حضرت ادریس علیہ السلام سے ملک الموت سے کہا کہ آپ روح کسطرح نکالتے ہو تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے اجازت لے کر ان کو کہا کہ آپ لیٹ جائیں پھر انہوں نے اُنکی روح نکالنا شروع کر دیا پھر تھوڑی دیر بعد حضرت ادریس علیہ السلام نے منع کر دیا کہ اب رک جاؤ پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے جہنم دیکھنے کی خواہش کی پھر ملک الموت نے اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد انہیں لے گئے جہنم سے پہلے ہی حضرت ادریس علیہ السلام نے گرمی اور سختی کی وجہ سے کہا کہ بس میں نے دیکھ لیا جبکہ انہوں نے نہیں دیکھا تھا پھر اسی طرح جنت کی خواہش ظاہر کی پھر اللہ تعالیٰ سے اجازت کے بعد وہ دونوں گئے پھر حضرت ادریس علیہ السلام نے جنت میں سے جانے سے منع کیا تو فرشتے نے اُن سے کہا کہ یہاں موت سے پہلے نہیں آ سکتے تو حضرت ادریس علیہ السلام نے کہا کہ روح تو نکالی تھی نا۔ بھلے تھوڑی ہی، لیکن نکالی تھی، پھر ان کو اجازت مل گئی اور وہ وہاں ہی ہے۔ اس کی دلیل انہوں نے کہا کہ رفع ادریس ایسے کچھ الفاظ ہے ۱۰ سے ۲۰ پارے کے درمیان میں نے کہا کہ آسمان پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں سنا تھا یہ پہلے سنا تو وہ کہنے لگے کہ یہ علماء کرام کے لیول کی باتیں ہیں، عوام میں ان کو بیان نہیں کیا جاتا اور میں قرآن سے بتا رہا ہوں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس واقعہ کی تحقیق بیان فرمائیں۔
(المستفتی : محمد یاسین، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : قرآن کریم میں حضرت ادریس علیہ السلام کے ذکر میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا۔ اور ہم نے انہیں رفعت دے کر ایک بلند مقام تک پہنچا دیا تھا۔ 

اس آیت کی تفسیر میں بعض مفسرین نے سوال نامہ میں مذکور اور اس جیسے اور بھی واقعات بیان کیے ہیں۔ اس واقعہ کی تحقیق میں درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ فرمائیں :

دارالعلوم دیوبند کا فتوی ہے :
حضرت ادریس علیہ السلام کے زندہ آسمان میں اٹھائے جانے کے متعلق جو روایات ہیں حضرت مفتی شفیع صاحب رحمةاللہ علیہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں کہ ان روایات کے بارے میں ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے فرمایا : یہ کعب احبار کی اسرائیلی روایات میں سے ہیں اور اُن میں سے بعض میں نکارت واجنبیت ہے اور حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم کی آیت وَرَفَعْنٰہُ مَکَانًا عَلِیًّا کے معنی یہ ہے کہ اُن کو نبوت و رسالت اور قرب الٰہی کا خاص مقام عطا فرمایا گیا، بہرحال قرآن کریم کے الفاظِ مذکورہ صریح نہیں ہے کہ یہاں رفعت درجہ مراد ہے یا زندہ آسمان میں اٹھانا مراد ہے اس لیے انکار رفع الی السماء قطعی نہیں ہے (معارف القرآن، ج: ۶/۴۰) مذکورہ عبارت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کا زندہ جنت میں جانا قطعی نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام میں سے صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام باحیات ہیں قرآن کریم اس پر شاہد ہے بل رفعہ اللہ إلیہ (النساء آیت: ۱۵۸) اور آپ قرب قیامت میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔ (رقم الفتوی : 145940)

مفتی رضاء الحق لکھتے ہیں :
حقیقت بھی یہی ہے کہ اس روایت کے اکثرو بیشتر رواۃ کا تذکرہ کتب رجال میں موجود ہی نہیں ہے ان کے علاوہ اور دوسرے حضرات مثلا امام سیوطی ؒ نے در منثور میں امام قرطبی نے اپنی تفسیر میں اور علامہ آلوسی نے روح المعانی میں اور دیگر مفسرین نے اپنی کتب تفاسیر میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے اور اس روایت کے مختلف طرق نقل کئے ہیں، لیکن خلاصہ یہ ہے کہ اکثرکا مدار کعب احبار پر ہے اور ان کے بارے میں ابن کثیرؒ کی رائے گزرچکی کہ یہ اسرائیلیات ہیں اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو روایات کعب احبار کے علاوہ ہیں ان کے رواۃ پر جرح ہے وہ غیر مقبول ہیں ، لہذا کسی بھی اعتبار سے اس واقعہ کی روایات قابل اطمینان نہیں اور اس کی صحت بہت بعید ہے۔ (فتاوی دارالعلوم زکریا : ١/١٣١)

شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی تحریر فرماتے ہیں :
اس سے مراد نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کا اعلیٰ مرتبہ ہے جو ان کے زمانے میں انہی کو عطا ہوا۔ بائبل میں ان کے بارے میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔ تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی ایسی کچھ روایتیں آئی ہیں جن کی بنیاد پر کہا گیا ہے کہ اس آیت میں اسی واقعے کی طرف اشارہ ہے۔ لیکن یہ روایتیں سند کے اعتبار سے نہایت کمزور اور ناقابل اعتبار ہیں۔ (توضیح القرآن : ٦٦٠)

درج بالا تفصیلات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوگیا کہ سوال نامہ میں مذکور حضرت ادریس علیہ السلام کا واقعہ معتبر نہیں ہے، لہٰذا اسے بیان نہیں کرنا چاہیے۔ اور مَكَانًا عَلِيًّا سے مراد یہی ہے کہ حضرت ادریس علیہ السلام کو نبوت و رسالت اور تقویٰ اور بزرگی کے اعلیٰ مرتبہ پر فائز کیا گیا تھا جو اُس وقت کسی اور کو نہیں دیا گیا تھا۔


عن ام سلمۃ ان رسول اللہاقال ان ادریس علیہ السلام کان صدیقا لملک الموت فسألہ أن یریہ الجنۃ والنار فصعد ادریس ،رواہ الطبرانی فی الاوسط وفیہ ابراہیم بن عبد اللہ بن خالد المصیصی وہومتروک۔ (مجمع الزوائد ۸/۱۹۹)

حدثنا حسین بن علیّ عن زائدۃ عن مسیرۃ الاشجعی عن عکرمۃ عن ابن عباس قال : سالت کعباً عن رفع ادریس مکانا علیا فقال الخ ۔(مصنف ابن ابی شیبہ ۱۱/۵۴۹/۱۱۹۳۲)

ابن کثیر ؒ نے اپنی تفسیر میں اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد یہ تبصرہ فرمایا ہے۔

ھذا من اخبار کعب الاحبار الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارۃ ۔واللہ اعلم (تفسیر ابن کثیر : ۳/ ۱۴۰)

وھذا من الاسرائیلیات وفی بعضہ نکارۃ وایضا قال فی مثل ھذہ الروایات وہو من الاسرائیلیات لا تصدق ولا تکذب بل الظاہر ان صحتہا بعیدۃ۔(البدایۃ والنہایۃ : ۱/۱۱۲)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
24 شوال المکرم 1445

منگل، 30 اپریل، 2024

احرام پہن کر نفلی طواف مطاف سے کرنا



✍️ مفتی محمد عامر عثمانی ملی 
              (امام وخطیب مسجد کوہ نور )

قارئین کرام ! گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصہ سے یہ سوال بڑی کثرت سے آرہا ہے کہ مسجد حرام میں مطاف میں اترنے کے لئے سعودی حکومت کی طرف سے یہ پابندی ہے کہ صرف احرام والوں کو نیچے مطاف میں اتر کر عمرہ کرنے کی اجازت ہے۔ بغیر احرام کے یعنی عام لباس میں مطاف کے گراؤنڈ میں جانے کی اجازت نہیں ہے۔ تو ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟ جبکہ اگر نفل طواف سادہ کپڑوں میں کرنا ہو تو اوپر والے منزلہ سے کرنا پڑتا ہے۔ جس میں بہت زیادہ وقت لگنے کے ساتھ ساتھ بہت لمبا چکر لگانا پڑتا ہے۔ جوکہ بہت زیادہ باعث مشقت ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر کوئی شخص کعبہ کے قریب جاکر نفل طواف کرنے کی غرض سے بغیر عمرہ کی نیت کئے صرف احرام کے چادر اوڑھ کر محرمین کی شکل و صورت اپنائے اور ان کے ساتھ مطاف میں اتر جائے تو از روئے شریعت اس کا یہ عمل جائز ہوگا یا نہیں؟ اس طرح کرنا دھوکہ دہی میں شامل ہے یا نہیں؟

بہت سارے دارالافتاء نے اس کے نادرست ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔ مثلاً دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن نے جواب میں لکھا ہے کہ :
صورتِ مسئولہ میں جب حکومت کی طرف سے صرف احرام والے حضرات کو بیت اللہ کے قریب طواف کرنے کی اجازت ہے، اس کے علاوہ لوگوں  کو بیت اللہ کے قریب نفلی طواف کرنے کی اجازت نہیں ،تو صرف اس وجہ سے بغیر نیتِ احرام کے چادریں پہننا کہ بیت اللہ کے قریب  نفلی طواف کرسکوں، خلافِ واقع اور حقیقت کے برخلاف ہے۔ لہٰذا اس عمل سے اجتناب کیا جائے، لیکن اگر کوئی شخص صرف احرام کی چادر پہن کر طواف کرے گا تو طواف ہوجائے گا۔ (رقم الفتوی : 144402101190)

لیکن کسی نے بھی جواب دیتے ہوئے یا سوال کرتے ہوئے یہ نہیں بتایا کہ آخر یہ پابندی کیوں ہے؟ کیا تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے؟ یا وبائی امراض کی وجہ سے؟ یا اور کچھ؟ اور پھر یہ پابندی بھی صرف مردوں کے لئے ہے عورتوں کے لئے نہیں ہے۔ اگر یہ پابندی تعداد کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہے تو یہ کوئی خاص عذر نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے احرام کو مطاف کے لئے لازم قرار دیا جائے، کیونکہ سعودی پولیس بھیڑ ہونے پر ایسے بھی مسجد الحرام ہی میں سرے سے داخلہ بند کر دیتی ہے، اور بھیڑ کو قابو کرتی ہے، ماضی میں بھی پچیس لاکھ لوگ حج کرتے رہے ہیں، اس کے باوجود ایسی کوئی پابندی نہیں تھی، پھر یہ پابندی صرف حج میں نہیں اب تو عام دنوں میں بھی لگائی جارہی ہے جس کی کوئی جائز وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔

اس پابندی کا کورونا سے یا وبائی امراض سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہ مانتے ہیں کہ سعودی حکومت حج اور عمرے کو اب بزنس بنارہی ہے اور پیٹرول پر سے انحصار ختم کر رہی ہے، اس لئے وہ مطاف میں صرف عمرے والوں کو اترنے دے رہی ہے، آئندہ آنے والے دنوں میں یہ خدشہ ہے کہ ریاض الجنة کی طرح ایک سفر میں بس ایک عمرے کی اجازت وہ بھی ایپ کے ذریعے دی جائے گی، اور یہ اسی کے لئے ذہنی طور پر حجاج کو تیار کیا جارہا ہے۔ اور یہ سب اس لئے کہ عمرے کرنے والے کم سے کم دن رکیں اور اس طرح زیادہ سے زیادہ لوگوں کو بلاکر پیسہ کمایا جائے، کیونکہ لاک ڈاؤن نے سعودی معیشت کو بھی متاثر کیا ہے۔

یہ بھی یاد رہے کہ بہت سارے علماء کرام کا ماننا یہ ہے کہ مطاف طواف کرنے والوں کے لئے خاص ہے، طواف چاہے نفل ہو یا عمرے کا، سعودی حکومت متولی ہے اس کو یہ حق نہیں ہے کہ مطاف سے طواف کرنے والوں کو روکے، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی مسجد کا متولی یہ پابندی لگادے کہ مسجد میں صرف فرض نماز کی اجازت ہے، سنت نفل اپنے گھر میں پڑھیں، ظاہر ہے ایسی پابندی لگانا درست نہیں ہے اور متولی کو اس کا کوئی حق نہیں ہے، اور نماز تو کہیں بھی ادا ہوجاتی ہے، مگر طواف تو صرف مسجد الحرام میں ہی ہوسکتا ہے، نفل طواف کے لئے مطاف کو بند کرنے کی کوئی شرعی دلیل سعودی حکومت کے پاس شاید نہیں ہے، اگر کوئی شرعی دلیل ہے تو سعودی حکومت کو چاہیے کہ اسے امت مسلمہ کے سامنے پیش کرے، بیت اللہ پر پوری امت کا حق ہے، لہٰذا امت کو واقف کرانا چاہیے۔

اگر سعودی حکومت کے اس قانون پر عمل کیا جائے تو گویا حجرِ اسود کے بوسہ کا عمل ہی گویا بالکل ختم ہوجائے گا، کیونکہ حج یا عمرہ کے احرام میں حجر اسود کا بوسہ لینا اس پر خوشبو لگی ہونے کی وجہ سے منع ہے، اور نفلی طواف میں ہم مطاف میں جا ہی نہیں سکتے تو کہاں سے بوسہ لیں گے؟

بہرحال آپ کے مسئلے میں ایک صورت پیش کرتا ہوں جس میں دھوکہ کا بھی اندیشہ نہیں ہے اور وہ یہ ہے کہ : جب عمرہ کریں تو عمرے کے طواف اور واجب الطواف کے بعد جتنا طواف کرنا چاہیں، کرلیں، ہر ایک کے بعد واجب الطواف پڑھ لیں اگر مکروہ وقت نہیں ہے تو، پھر آخر میں عمرہ کی سعی کر کے بال بنواکر احرام سے نکل جائیں، کیونکہ عمرہ کے طواف و سعی کے درمیان اتصال ضروری نہیں ہے بلکہ سنت ہے، بہتر ہے کہ طواف کے فوراً بعد سعی کرلی جائے، لیکن اگر مذکورہ عذر کی وجہ سے سعی کو مؤخر کیا تو کوئی حرج نہیں اور نہ ہی کوئی جزا لازم ہوگی۔

تاہم اگر کوئی نفلی طواف کرنے کے لیے احرام پہن لے اور مطاف چلا جائے تو مذکورہ بالا وجوہات کی بناء پر اس کی گنجائش ہوگی، ہاں اگر وہاں کوئی اس سے پوچھے کہ نفلی طواف کررہے ہیں یا عمرہ؟ تو جو بات صحیح ہو وہی کہے۔


واما السنۃ  فمنھا ان یوالی بین الطواف والسعی فلو فصل بینھما بوقت ولو طویلا فقد ترک السنۃ ولیس علیہ جزاء۔ (الفقہ علی المذاھب الاربعۃ : ١/٤٥٩)


نوٹ : اس مضمون میں استاذ محترم قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی حسنین محفوظ صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے تبصروں کو بڑی تعداد میں شامل کیا گیا ہے اور حضرت مفتی صاحب کی تائید سے اس کو شائع کیا جارہا ہے۔ 

اتوار، 28 اپریل، 2024

قرآن مجید خریدتے وقت اس کی قیمت کم کروانا


سوال :

محترم مفتی صاحب  جب ہم دکاندار سے کوئی چیز خریدتے ہیں مثلا جوتا کپڑا چپل وغیرہ وغیرہ اور دکاندار سے ہم قیمت کم کرانے کا سوچتے ہیں۔ اسی طرح قرآن پاک کو خریدنا اور اس پر قیمت کم کرانا اس کا کیا حکم ہے؟ کیا اس میں کوئی گناہ کی بات ہے یا دکاندار جتنا کہے اسے اتنی قیمت دے دینا چاہیے؟
(المستفتی : ارشاد ناظم، مالیگاؤں)
------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : کسی بھی چیز کی خرید و فروخت کے وقت سمجھداری سے کام لینا، تجربہ کار لوگوں کے مشورہ سے فائدہ اٹھانا تاکہ دھوکہ نہ کھائے، اور مول بھاؤ کرنا شریعت کے اصولوں سے ثابت اور شرعاً مطلوب ہے۔ لہٰذا قرآن مجید بھی خریدتے وقت اگر مول بھاؤ کیا جائے اور قیمت میں کچھ کمی کی بات کی جائے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ جو لوگ اس وقت مول بھاؤ کرنے کو ناجائز سمجھتے ہیں وہ غلطی پر ہیں، انہیں اپنی غلطی درست کرلینا چاہیے۔


قال : البيع ينعقد بالإيجاب والقبول إذا كانا بلفظي الماضي، مثل أن يقول أحدهما: بعت، والآخر: اشتريت؛ لأن البيع إنشاء تصرف، والإنشاء يعرف بالشرع والموضوع للإخبار قداستعمل فيه فينعقد به. ولاينعقد بلفظين أحدهما لفظ المستقبل والآخر لفظ الماضي، بخلاف النكاح، وقد مر الفرق هناك. وقوله: رضيت بكذا أو أعطيتك بكذا أو خذه بكذا، في معنى قوله: بعت واشتريت؛ لأنه يؤدي معناه، والمعنى هو المعتبر في هذه العقود، ولهذا ينعقد بالتعاطي في النفيس والخسيس هو الصحيح؛ لتحقق المراضاة۔ (ہدایہ : ٣/١٨)فقط 
واللہ تعالٰی اعلم 
محمد عامر عثمانی ملی 
18 شوال المکرم 1445