پیر، 19 نومبر، 2018

ای ‏کوڈ E CODE ‏کی ‏شرعی ‏حیثیت

سوال :

کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان شرع متین درمیان مسئلہ ھذا کے کہ ای کوڈ کے متعینہ نمبرات مثلاً E471 وغیرہ کے پروڈکٹ جن میں مشہور کمپنیوں کی آئسکریم، کیڈبری وغیرہ میں سور کی چربی ملے ہونے کی باتیں کہی جارہی ہیں، ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے، جس میں اسی کوڈ کے متعلق مذکورہ باتیں انٹرنیٹ کے حوالے سے بیان کی گئیں ہیں، ویڈیو بھی ارسال کی جارہی ہے، آپ سے درخواست ہے کہ شریعت مطھرہ کی روشنی میں اس کا حکم بیان فرمائیں اور عنداللہ ماجور ہوں۔
(المستفتی : ریحان احمد، مالیگاؤں)
----------------------------------------
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب وباللہ التوفيق : ارسال کردہ ویڈیو میں اور بعض افراد کی طرف سے E CODE والے پروڈکٹس میں سور کی چربی شامل ہونے کی باتیں کہی جارہی ہیں، جبکہ یہ پروڈکٹس آج کل کثرت سے لوگوں کے استعمال میں ہیں اور بلا شبہ کروڑوں مسلمان بھی روز مرہ کی زندگی میں ان چیزوں کے عادی ہوچکے ہیں، اس لئے ان چیزوں کی حرمت کے بارے میں فتوی دیتے وقت نہایت احتیاط کی ضرورت ہے، کسی انجان اور غیرعالم شخص کی ویڈیو سے یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی کہ جو تحقیق اس ویڈیو میں بیان کی گئی ہے وہ بالکل درست ہے،  بلکہ ایسی چیزیں خود ہی قابلِ تحقیق ہیں اور اگر بالفرض اس ویڈیو میں بیان کی گئی تحقیق کو درست مان بھی لیا جائے، تو یہ امر قابلِ تحقیق رہ جاتا ہے کہ آیا وہ ناپاک اجزاء ان اشیاء میں مل کر اپنی اصلی شکل میں موجود ہیں یا کیمیکلوں کے ذریعہ ان کی ماہیت تبدیل کر دی گئی ہے، اگر یہ ثابت ہوجائے کہ ان کی ماہیت بدل چکی ہے، تو ایسی اشیاء کے استعمال میں شرعاً کوئی حرج نہ ہوگا جیسا کہ شراب کا شیرہ اگر سرکہ میں تبدیل ہوجائے، تو سرکہ کا استعمال درست ہوتا ہے، اسی طرح فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر ناپاک تیل سے صابون بنایاجائے، تو اس صابون کا استعمال درست ہے، کیونکہ ماہیت بدل جاتی ہے، اس لئے جب تک مذکورہ اشیاء میں ماہیت کی تبدیلی یا عدم تبدیلی کے متعلق مکمل تحقیق سامنے نہ آجائے، اس وقت تک مذکورہ اشیاء کو حلال ہی کہا جائے گا، ان کی حرمت کا فتوی نہیں دیاجاسکتا۔ (مستفاد : کفایت المفتی ۲؍۲۷۷ تا ۲۸۴، ایضاح المسالک ۱۴۲، فتاوی قاسمیہ ٢٤/١٠١)

الأصل في الأشیاء الإباحۃ۔ (قواعد الفقہ اشرفي ۵۹)

من شک في إنائہ، أوثوبہ، أوبدنہ أصابتہ نجاسۃ أو لا، فہو طاہر مالم یستیقن، وکذا الآبار، والحیاض، والحباب الموضوعۃ في الطرقات، ویستقي منہا الصغار، والکبار، والمسلمون، والکفار، وکذا ما یتخذہ أہل الشرک، أوالجہلۃ من المسلمین کالسمن، والخبز، والأطعمۃ، والثیاب۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، قبیل مطلب في أبحاث الغسل، زکریا۱/۲۸۳-۲۸۴، کراچي ۱/۱۵۱)

إن النجاسۃ لما استحالت وتبدلت أوصافہا، ومعانیہا خرجت عن کونہا نجاسۃ؛ لأنہا اسم لذات موصوفۃ فتنعدم بانعدام الوصف وصارت کالخمر إذا تخللت۔ (بدائع الصنائع، کتاب الطہارۃ، الدباغۃ، زکریا ۱/۲۴۳، کراچي۱/۸۵)

ثم اعلم أن العلۃ عند محمدؒ ہي التغیر وانقلاب الحقیقۃ، وإنہ یفتیٰ بہ للبلویٰ کما علم مما مرَّ، ومقتضاہ عدم اختصاص ذلک الحکم بالصابون فیدخل فیہ کل ما کان فیہ تغیر وانقلاب حقیقۃ، وکان فیہ بلویٰ عامۃ۔ (شامي، کتاب الطہارۃ، باب الأنجاس، زکریا۱/۵۱۹، کراچي۱/۳۱۶)فقط
واللہ تعالٰی اعلم
محمد عامر عثمانی ملی
12 محرم الحرام 1440

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں